سرینگر : جموں و کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے فوجیوں کی جرات کو سلام
کرتے ہوئے آج کہا کہ میں ان تمام شہیدوں کو سلام کرنا چاہتی ہوں ، جنہوں
نے ملک کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں سے ہمارے
سیکورٹی اور پولیس اہلکاروں کو مشکل حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی
ساتھ محبوبہ مفتی نے یہ بھی کہا کہ آپ حریت یا کسی کے سر پر بندوق رکھ کر
اپنی بات نہیں منوا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ دہلی کے سر پر پتھر مار کر ہی
اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ ہمیں افسپا کو ختم کرنا ہے، مگر اس کے پیچھے دہشت
گردی کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ تاہم افسپا کو کبھی تو ہٹانا ہی پڑے گا۔
محبوبہ مفتی نے ریاست کے حالات پر کہا کہ کسی اور ریاست میں الیکشن ہوتا ہے
تو وہاں سڑک، پانی اور بجلی کا معاملہ ہوتا ہے ، لیکن ہمارے یہاں اور بھی
مسائل رہتے ہیں۔ یہاں پولیس کا کام لا اینڈ آرڈر کا نہیں رہتا ہے۔ میں نے
گزشتہ 3 ماہ کے دوران محسوس کیا کہ پولیس کا کام پولیسنگ کے علاوہ پیرنٹنگ
کا بھی ہے۔ آپ کا سامنا دہشت گردوں سے ہوتا ہے ، جو 17، 18، 20 سال کے بچے
ہیں۔ ان کی پیرنٹنگ کی ضرورت ہے۔
جموں و کشمیر کی وزیر اعلی نے کہا کہ 3 ماہ میں پولیس نے جو کام کیا، وہ
ٹھیک تھا مگر کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی ۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو پتھر لے کر
پولیس اور سیکورٹی فورسز کے کیمپوں کی طرف دھکیلا گیا ، تو آپ لوگوں نے
صبر سے کام لیا ۔ ہمارے یہاں چیلنج بہت بڑا ہے۔ مفتی محمد صاحب نے اتنا بڑا
فیصلہ کیا، ہم نے بی جے پی سے ہاتھ ملایا، اس کا یہی مقصد تھا کہ دہلی کے
وزیر اعظم اور پاکستان کے وزیر
اعظم کو ایک ساتھ ملا کر اپنے سبھی مسائل کو
حل کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ہم مل جل کر اس کو سلجھانا چاہتے ہیں، دہلی میں کافی دنوں
بعد ایسا وزیر اعظم آیا ہے ، جس کے پاس دو تہائی اکثریت ہے، لیکن حالات
کافی مشکل ہیں ۔ جب کل جماعتی وفد یہاں آیا ، تو وہ ان لوگوں کے پاس بھی
گئے ، جن کو حریت کہا جاتا ہے ، مگر انہوں نے بات نہیں کی۔ میں نے بھی خط
لکھا تھا کہ بات کریں۔ بات کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ مفتی نے اٹل بہاری کے
دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشرف سے بات ہوئی تو اس کا اثر بھی
نظر آیا ۔ دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے اور وادی میں امن لوٹ آیا ۔ مگر
پھر یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ پاکستان کو بھی اس میں ساتھ دینا ہوگا۔ اس کا حل
دہلی یا اسلام آباد میں نہیں ، یہاں ہوگا ۔
فلموں اور فنکاروں پر جاری سیاست پر مفتی نے کہا کہ آج بات ہو رہی ہے کہ
فلم دکھائیں یا نہیں، مگر واگہہ بارڈر پر تجارت ایک منٹ کے لئے نہیں رگی۔
یہ سب سیاسی معاملات ہیں، مگر ہم امن چاہتے ہیں۔ میں پیلیٹ گن پر پابندی
چاہتی ہوں، میں بچوں کی آنکھوں اور ہاتھ پاؤں کو بچانا چاہتی ہوں ، مگر
اس میں آپ کو تھوڑا صبر کرنا پڑے گا، شاید زیادہ صبر کرنا پڑے گا۔ مفتی نے کہا کہ سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو ، سب کو امن کے لئے ایک ساتھ آنا
پڑے گا۔ میں جھولی پھیلا کر سب کے پاس جاؤں گی اور سب سے کہوں گی کہ بات
کیجئے ، کیونکہ اس سے ہی مسئلہ حل ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے اس واقعہ کا
بھی تذکرہ کیا ، جس میں کشمیری نوجوانوں نے فوج کے جوان کو حادثے میں بچایا
تھا۔ وزیراعلی نے کہا کہ ایسی مثال کہیں ملے گی؟۔